| مَیں شعر کہوں گا تو پذِیرائی کرے گا |
| وہ درد بھرے ساز کو شہنائی کرے گا |
| وہ سامنے ہو تو ہمہ تن گوش رہُوں گا |
| کُچھ بھی نہ کرے گا، سُخن آرائی کرے گا |
| مُمکِن ہے یہ سب اُس سے کہ وہ دُشمنِ جاں ہے |
| شُہرت کو مِری شاملِ رُسوائی کرے گا |
| آزار دِیئے تُم نے سو یہ ظرف تُمہارا |
| دیکھے گا جہاں جو ابھی سودائی کرے گا |
| پڑھتے ہیں سبھی شعر مِرے ظاہری لیکِن |
| ہے کون جو اندازۂِ گہرائی کرے گا |
| آئے گا مِرے گھر بھی کِسی روز پرِندہ |
| محفِل کو مِری لُوٹ کے تنہائی کرے گا |
| لُٹنے کا سبب جو ہے اُسی سے ہیں اُمِیدیں |
| کل شخص وہی دِل کی مسِیحائی کرے گا |
| دُشمن ہے اگر سامنے آ کر تو بتائے |
| پِیچھے سے مگر وار وہ ہرجائی کرے گا |
| صدیوں سے الگ رکھا ہے جِس خاک بسر کو |
| اب چین سے دِیدار وہ شَیدائی کرے گا |
| فن میرا نہِیں کُچھ بھی، نِکھر آئے گا اِک دِن |
| اِک شخص اگر حوصلہ افزائی کرے گا |
| حسرتؔ سے سِتاروں نے کوئی چال چلی ہے |
| پُوچھے گا کوئی، کیا مِری شِنوائی کرے گا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات