میں کیسے رہوں قوتِ اقلام کا منکر
جب کہ اسی براق سے پہنچا تا ثریا
اس کی ہی وہ ہیبت ہے کہ ہل جائے حکومت
اس کی ہی وہ طاقت ہے کہ لرزہ ہے ستارہ
اس کی ہی نوا سنجی کے گلشن میں فسانے
ہرچند کہ گاتا ہے یہ خاموش ترانہ
اک لحظہ میں وہ توڑ دے ہر ظلم کا پنجہ
بیداد فلک ہو کہ ہو ظالم ہی زمانہ
چھپ سکتا ہے کیسے کوئی ظالم ترے ید سے
ان دیکھے بجا لگتا ہے وہ تیرِ نشانہ
تو نے کئی گلشن کیے ویرانے میں تبدیل

0
13