| شب ہجراں آئی ہے تو میں تھوڑا ڈر گیا ہوں |
| اندر سے جیتے جی ہی میں تھوڑا مر گیا ہوں |
| شوقِ وصال میں اے جانِ جہانِ فانی |
| اب سر سے پا ئوں تک میں تھوڑا سنور گیا ہوں |
| کرنے لگا تو ہے وہ کچھ رازوں کو بھی اِفشا |
| اب گہرے بحر میں میں تھوڑا اُتر گیا ہوں |
| جی مسکرایا تو تھا وہ دیکھ کے مجھی کو |
| الفت میں نام پیدا میں تھوڑا کر گیا ہوں |
| مجھ کو کچھ اور نہیں بس تُو ہی تو چاہیے گو |
| تھوڑا اِدھر کو اور میں تھوڑا ادھر گیا ہوں |
| دنیا تو بس وصال و فرقت کا نام ہی ہے |
| اب ٹھوکریں کھا کر میں تھوڑا سدھر گیا ہوں |
| مظلوموں کی شکستہ حالی کو دیکھا جب سے |
| جی ہاں مرا نہیں میں تھوڑا بکھر گیا ہوں |
| اس پار میں اُتر جاؤں گا ترے کرم سے |
| ہاں پل صراط سے میں تھوڑا گزر گیا ہوں |
| یہ سچ ہے مجھ کو بھی تو الفت بہت تھی اس سے |
| یہ جرم مان کر میں تھوڑا مکر گیا ہوں |
| کچھ اس طرح سے اس نے جھنجوڑا تھا جی مجھ کو |
| تیزی سے چلتے چلتے میں تھو ڑا ٹھہر گیا ہوں |
معلومات