| یوں تو ہلالِ عید ہے لایا پیامِ عید |
| پر سوچ میں ہیں کیسے کریں اہتمامِ عید |
| چہروں پہ مسکراہٹیں آئیں کہ شامِ عید |
| لازم ہے کچھ تو ہم بھی کریں احترامِ عید |
| رب کی رضا میں خوش ہوئے ہیں سب سے بڑھ کے یہ |
| ہے وقت کا خلیفہ ہمارا امامِ عید |
| بچوں کے خوں سے ہاتھ تو رنگین ہو گئے |
| تلوار ڈھونڈتی ہے کہاں ہے نیامِ عید |
| ماں باپ جن کے چھن گئے ان کا سوال ہے |
| یہ ابتدا ہے یا ہوا ہے اختتامِ عید |
| جن کو عبادتوں سے نہ تھا کوئی سرو کار |
| شیطان ان کو بھیجتا ہے اب سلامِ عید |
| خوشیوں میں ہوں غریب بھی شامل تو ہو خوشی |
| کرتا ہے اصل میں یہ تقاضا نظامِ عید |
| پیغامِ صلح دے کے گیا ہے امامِ وقت |
| مانیں گے اس کو تب کہیں ہو گا دوامِ عید |
| معصوم خون اب نہ بہائے مزید یوں |
| ظالم کو چاہئے کہ کرے احترامِ عید |
| دل کو خوشی ہو جنگ کے اسباب ختم ہوں |
| مل کر اگر کریں سبھی یہ انتظامِ عید |
| گزرا مہِے صیام جو بخشش نہ پا سکے |
| وہ سوچتے تو ہوں گے یہ کیا ہے مقامِ عید |
| خوشیاں منائیں وصل ہے جن کو ہوا نصیب |
| طارق رہے خدا کرے ان کی مدام عید |
معلومات