| جب بھی یہ ہجرِ خانہ خراب اترا تو پھر میں سمجھا |
| یونہی کہیں سے غم کا نصاب اترا تو پھر میں سمجھا |
| میرے کتنے قریب تھا وہ جس کے ہاتھوں لہو تھا میرا |
| آخر سچ کے منہ سے نقاب اترا تو پھر میں سمجھا |
| جاں لیتا ہے کیوں سبھی کی یہ عشق آخر یہ کیا بلا ہے |
| ہجر کا جب مرے سر پر عذاب اترا تو پھر میں سمجھا |
| تیرے آنے کی جستجو میں عجیب الجھن میں زندگی تھی |
| وصل کا دل سے میرے سراب اترا تو پھر میں سمجھا |
| تشنہ لب تھے سوال کتنے درونِ خانہ پنپ رہے تھے |
| الٹا سوال ہی میرا جواب اترا تو پھر میں سمجھا |
| پہلے پہلے تو گفتگو میں اک سلیقہ تھا ان کی جانب |
| باتیں بڑھتی گئیں اور حجاب اترا تو پھر میں سمجھا |
| تیرگی تھی میرے گھر میں لے کے اجالے اپنے ساغر |
| کوئی شب کا مارا آفتاب اترا تو پھر میں سمجھا |
معلومات