جب بھی یہ ہجرِ خانہ خراب اترا تو پھر میں سمجھا
یونہی کہیں سے غم کا نصاب اترا تو پھر میں سمجھا
میرے کتنے قریب تھا وہ جس کے ہاتھوں لہو تھا میرا
آخر سچ کے منہ سے نقاب اترا تو پھر میں سمجھا
جاں لیتا ہے کیوں سبھی کی یہ عشق آخر یہ کیا بلا ہے
ہجر کا جب مرے سر پر عذاب اترا تو پھر میں سمجھا
تیرے آنے کی جستجو میں عجیب الجھن میں زندگی تھی
وصل کا دل سے میرے سراب اترا تو پھر میں سمجھا
تشنہ لب تھے سوال کتنے درونِ خانہ پنپ رہے تھے
الٹا سوال ہی میرا جواب اترا تو پھر میں سمجھا
پہلے پہلے تو گفتگو میں اک سلیقہ تھا ان کی جانب
باتیں بڑھتی گئیں اور حجاب اترا تو پھر میں سمجھا
تیرگی تھی میرے گھر میں لے کے اجالے اپنے ساغر
کوئی شب کا مارا آفتاب اترا تو پھر میں سمجھا

0
18