چاہتوں کے یہ تقاضے نبھاتے رہو
تم گئے ہو تو بھی لوٹ آتے رہو
دور ہو کر بھی دل سے نہ جانا کبھی
خواب آنکھوں میں آ کر سجاتے رہو
شامِ ہجراں میں تنہا کھڑا ہوں مگر
اپنے وعدوں کی شمعیں جلاتے رہو
تم جو بچھڑے تو آنکھیں بھی نم ہو گئیں
اب دعاؤں میں مجھ کو بساتے رہو
زندگی تم سے روشن تھی، اب بے نوا
یاد کی روشنی کو جگاتے رہو
میں نے سیکھا ہے ہر حال میں جینا تم
میرے ہونے کا احساس لاتے رہو
خوشبوئیں تم سے تھیں، رنگ بھی تم سے تھے
زخم دل کے مگر تم چھپاتے رہو
تم نہ آؤ مگر خواب زندہ رہیں
دھوپ میں چاندنی بن کے آتے رہو
راستے تم کو شاید بھلا دیں مگر
دل کی سرگوشیوں میں سماتے رہو
یہ ۔ضروری نہیں پھر ملاقات ہو
پھر بھی خط بے سبب تم لکھاتے رہو

0
2