* غزل *
شیریں و فرہاد و خسرو اور جوئے شیر، خواب
داستانِ لیلیٰ مجنوں، قیس، رانجھا ہیر، خواب
نیند سے بوجھل ہیں پلکیں اور ہیں تحریر خواب
جانے کیا دکھلائیں، دیکھیں صبح دم، تعبیر، خواب
ہر ورق پڑھتی رہیں آنکھیں کتابِ ہجر کا
برسرِ نوکِ مژہ کرتے رہے تشہیر، خواب
یہ مری شہ رگ ہے، میری جان، دنیا جان لے
جاگتی جیتی حقیقت ہے، نہیں کشمیر، خواب
بیج خوشیوں کا کبھی بویا الٹ تعبیر نے
اور شجر کاری کبھی کرتے رہے دلگیر خواب
روز اک چہرہ سجایا ہے سرِ مژگانِ چشم
روز دکھلاتے ہیں اک بدلی ہوئی تصویر، خواب
اصغرِ معصوم کی صورت میں خالی گود کو
جاگتے میں دیکھتی ہے مادرِ بےشیر خواب
خامہءِ صد رنگ کے بھی تُو کبھی جوہر دکھا
لکھ دھنک رنگوں سے بھی اے کاتبِ تقدیر، خواب
آنکھ کھلتے ہی میں شہزادہ وہ شہزادی نہ تھی
تھے ہوا جو بھی محل کرتے رہے تعمیر خواب
ساتھ ہم دونوں نے جو لمحے گزارے تھے کبھی
اُن حسیں لمحوں کی ہیں تھامے ہوئے زنجیر، خواب
جب سے خسرو کو ہوا لاحق جنونِ عاشقی
رکھ کے پہلو میں وہ دیکھے ہے بیاضِ میر، خواب
(فیروز ناطق خسروؔ)
(20-08-2020)

0
19