آنکھ لڑا کر دل بھی دے کر جاں بھی اسے انعام کیا |
خلق بھی نوحہ خواں ہے ثانی تو نے یہ کیا کام کیا |
کیا بھوری سے کیا کالی سی دونوں کو شانہ بخشا |
کیا اوپر کا کیا نیچے کا دونوں لب کو جام کیا |
چپکے دونوں لب جیسے کہ گوند سے دونوں چپک گئے |
ایسے چمٹے دونوں جسم جیسے کہ ادغام کیا |
ہلے زلف و رخ تھے تیرے اور اب تیری یادیں ہیں |
کام ہمیشہ پیش رہا ہے کب ہم نے آرام کیا |
ہم تو راہ پہ لانے میں یوں ازل سے تھک تھک جاتے ہیں |
راون ہی ہوگا وہ جس نے تجھ جیسے کو رام کیا |
چشمِ خلائق آج ہمارا سارا تماشا دیکھے گی |
درد کو کیوں وہ دور کریں گے جس کو تو نے عام کیا |
چشم و ابرو سے بدنامی ثانی کی تقدیر ہوئی |
چشم زدن میں ان دونوں نے ہم کو بھی بدنام کیا |
خون کے دریا داد میں اس کی دل سے ہمارے بہتے ہیں |
برق گرا کے جس نے ہم کو جینے کا پیغام کیا |
گیسوئے پرخم میں سر کو یوں ایسے چھپائے بیٹھے ہو |
بوئے وفا اس میں بھی ہوگی خوب خیالِ خام کیا |
تب تب قسمت گردش میں ہو یہ جب ایسے گھومے ہے |
تیری کتھئی آنکھوں کو بھی چرخِ نیلی فام کیا |
معلومات