| تمہاری آنکھ میں کھلتے گلاب دیکھے ہیں |
| تو خواب ہم نے بھی تازہ جناب دیکھے ہیں |
| امیرِ شہر کو اِس کی خبر کہاں کوئی |
| غریبِ شہر نے کتنے عذاب دیکھے ہیں |
| ہماری پیاس کی شدت ہے اس قدر یارو |
| کہ رات دشت میں ہم نے چناب دیکھے ہیں |
| دیارِ غیر میں لگنے لگا ہے جی اپنا |
| کچھ اپنے جیسے ہی خانہ خراب دیکھے ہیں |
| وہ جن کے فکر و عمل میں تضاد ہوتا ہے |
| خطیب کتنے ہی دیتے خطاب دیکھے ہیں |
| نظر ہے آئی ریاکاری پارساؤں کی |
| جو آج ہم نے اترتے نقاب دیکھے ہیں |
| چمکتی دھوپ میں سایہ ہمارا تھا مانی |
| ہماری آنکھ نے کتنے سراب دیکھے ہیں |
معلومات