مزاجِ موسم بھی یار سا ہے
مچلتی لُو کے غبار سا ہے
ستم ظریفی خزاں کی دیکھو
کہ جس کا چہرہ بہار سا ہے
بجھی بجھی سی یہ زندگی ہے
رگوں میں اترا بخار سا ہے
ہماری باتوں میں تم ہو لیکن
تمھارا لہجہ بے زار سا ہے
ملے گا ہم سے تو ٹال دے گا
ہمارا ساجن عیار سا ہے
خبر ہے وہ بے وفا ہے لیکن
ابھی بھی اک اعتبار سا ہے
تمہارے ملنے کے بعد ساغر
ہمارے دل پر خمار سا ہے

0
126