تیری محفل میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہم قصہِ درد سناتے ہیں چلے جاتے ہیں
شب بھر تنہائی میں تیری یادوں کے جگنو
میرے دل کو جلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
جانے کیوں اکثر میرے بستر میں ترے دکھ
آتے ہیں مجھ کو رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
جب شام ڈھلے تو دور کہیں ویرانے میں
ہم بیٹھ کے آنسو بہاتے ہیں چلے جاتے ہیں
غیروں کی بات نہیں اب میرے چمن کو
اپنے ہی آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ساحل کی ریت پہ لکھ کر تیرا نام یونہی
اپنے ہاتھوں سے مٹاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ڈر لگتا ہے اب تیری بدنامی سے ہمیں
تیرے دامن کو بچاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہم آتشِ ہجر سے ہی اپنے دل کو ساغر
خود جلاتے ہیں بجھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

0
187