کچھ نہ کچھ اپنا تعارف تو کرایا جائے |
اگلی نسلوں سے تعلّق کو بڑھایا جائے |
یوں نہ ہو آپ کا بھی مول لگا دے کوئی |
خود کو ایسے تو نہ بازار میں لایا جائے |
چاہئے پیار نصابوں میں بھی شامل کر لیں |
یہ نصیبوں سے ملے درس پڑھایا جائے |
کچھ محبّت کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں |
جس کو ہو جائے اُسے اتنا بتایا جائے |
پوچھا جائے کسی عاشق سے کٹہرے میں کبھی |
کون ہے اتنا حسیں سامنے لایا جائے |
منہ سے جب دعوئِ تو حید کیا جاتا ہے |
دل سے پھر سارے بتوں کو بھی ہٹایا جائے |
دوڑ دنیا کی لگی فاصلے ڈالے جس نے |
شہر کو شہر کے لوگوں سے ملایا جائے |
نفرتیں قابلِ تقلید نہیں ہیں یارو |
کچھ محبّت کو بھی آپس میں بڑھایا جائے |
پیار کی راہ پہ منزل کا پتہ ملتا ہے |
کیوں نہ کچھ دیر کو اِس راہ پہ جایا جائے |
صاف اگر دل کو کریں سارے محبّت کر لیں |
مسئلہ اپنی انا کا نہ بنایا جائے |
طارق آئینہ اگر دیکھیں تو سچ کہتا ہے |
آئینہ خود کو ضرورت ہے دکھایا جائے |
معلومات