| میں کیا کہوں، میں کیا لکھوں، ہر سمت پل پل جھوٹ اُف |
| میں کیا پڑھوں، میں کیا سنوں، بس آج سچ کل جھوٹ اُف |
| اُس حسن کو کوئی بھلا کیوں سامنے رکھے جہاں |
| دل جھوٹ، باتیں جھوٹ، آنکھیں جھوٹ، کاجل جھوٹ اُف |
| اِس زندگی نے آج تو حد کر دی لوگوں کی طرح |
| اک جھوٹ پھر دو جھوٹ اور پھر تو مسلسل جھوٹ اُف |
| دل عشق میں معصوم ہو جاتا ہے بچے کی طرح |
| لیکن ادائے عشق چالاکی ہے بلکل جھوٹ اُف |
| ہیں لوگ ایسے بھی مری بستی میں، میری ہستی میں |
| ہر بات کا جو بس سمجھتے ہیں کہ ہے حل جھوٹ اُف |
| اک عشق زادہ کا یہ کہنا ہے فراقِ یار میں |
| ہم اتنا روئے کہہ لو بادل جھوٹ، جھل تھل جھوٹ اُف |
| وہ چودھویں کا چاند خود کو کہتے ہیں ہاہا مگر |
| اک آدھ دن کا فرق ہو گا ماہِ کامل جھوٹ اُف |
| وہ قیس تو صحرا نشیں ہے، اُس کا کہنا ایسا ہے |
| سن لو سمندر جھوٹ، پانی جھوٹ، ساحل جھوٹ اُف |
| کامران |
معلومات