| کُن سے بنائے جن کے سبب رب نے دو جہاں |
| اللہ کے آ رہے تھے وہ محبوب رازداں |
| ۔ |
| جب جلوہ گر ہوئے تھے وہ سردارِ انس و جاں |
| دھومیں تھیں عرش و فرش پہ خوشیوں کا تھا سماں |
| ۔ |
| کعبہ جھکا تھا، ان سے مطہر ہوئی زمیں |
| اور نورِ والضحی سے منور ہوئے جہاں |
| ۔ |
| تھے شاد شاد حور و ملک مرسلین بھی |
| تشریف لا رہے تھے وہ سیّاحِ لا مکاں |
| ۔ |
| آنکھیں ہیں تیری سرمگیں چہرہ ہے نور و نور |
| شانوں کے بِیچ مہرِ نبوت ہے ضوفشاں |
| ۔ |
| کستوری مہک بدن کی ، ہو پیکر جمال کے |
| ثانی ترا خدا نے بنایا ہے کب، کہاں؟ |
| ۔ |
| طوب المحل لگی کہ نبوت ہوئی تمام |
| پیدا ہوئے تھے جب وہ نبی آخر الزماں |
| ۔ |
| تجھ سے چمک اٹھے تھے محلاتِ شام بھی |
| تاباں ہوئی زمین بھی چمکا تھا آسماں |
| ۔ |
| دریائے سادہ خشک ہوا جلوے سے ترے |
| کسری کے کنگرے بھی گرے ، پھوٹے تھے بتاں |
| ۔ |
| شیطان کی رسائی رکی آسمان پر |
| صدیوں سے جل رہا تھا وہ آتش کدہ بجھا |
| ۔ |
| آقا میں تیرے حسن و کمالات و معجزے |
| کب ؟ کر سکوں بیاں کہ نہیں میری اتنی جاں |
| ۔ |
| ایسا کرم کبھی ہو مدثر پہ یا نبی |
| چومے قدم، کرے وہ فدا تجھ پہ اپنی جاں |
معلومات