| علاجِ شِیشِ دِل کرُوں مِلے جو شِیشہ گر کوئی |
| کوئی مِلا نہِیں اِدھر، مِلے گا کیا اُدھر کوئی |
| ڈگر پہ عشقِ نامُراد کی چلا تھا بے خطَر |
| گھسِیٹ، لَوٹ لے چلا مِلا تھا چشمِ تر کوئی |
| نوِید ہو کہ ہم تُمہارا شہر چھوڑ جائیں گے |
| بسے تھے جِس کے حُکم پر چلا ہے رُوٹھ کر کوئی |
| شِکَستہ دِل کی دھجّیاں سمیٹ لے، گِلہ نہ کر |
| اجل کو تُجھ پہ ناز ہو سو موت ایسی مر کوئی |
| بِچھڑ کے مُدّتیں ہُوئیں، مگر لگے ہے آج بھی |
| کہ اُس گلی میں مُنتظِر ہے اب بھی بام پر کوئی |
| چلے جو اعتماد سے، رہے جو مُستقِل مِزاج |
| بنیں گے ہم بھی عِشق میں حوالہ مُعتبر کوئی |
| سمجھ لے حوصلہ طلب ہے کھیل سارا عِشق کا |
| بڑا خسارہ کر لیا، کہے گا تُجھ کو ہر کوئی |
| نِڈھال کر نہ دے کہِیں یہ تیری خامُشی اُسے |
| خُود اپنے ہاتھ سے تُو اپنے سر پہ دوش دھر کوئی |
| قیام کیا کریں چمن میں شاخِ گُل رہی نہِیں |
| رشِیدؔ سلب طاقتیں، رہا نہ بال و پر کوئی |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات