دھند میں لپٹا تھا اتنا خواب بھی بنتا نہ تھا |
شور اتنا سر میں تھا باتیں کوئی سنتا نہ تھا |
کانچ کی دیوار اپنے درمیاں حائل رہی |
وہ مجھے دکھتے تھے شاید میں انہیں دکھتا نہ تھا |
میں بکھرتا جا رہا تھا پر مجھے پروا نہ تھی |
جو بھی ٹکڑا گر رہا تھا میں اسے چنتا نہ تھا |
روز لگتا تھا کہ میلوں کی مسافت طے ہوئی |
ہفتوں ہفتوں جارپائی سے مگر اٹھتا نہ تھا |
سامنے رہتا تھا میرے لوگ یہ کہتے تھے کیوں |
یہ تمہارا وہم ہے وہ تو کبھی آتا نہ تھا |
ننگے پاؤں اس کے پیچھے بھاگتا تھا رات بھر |
پر کوئی بھی راہ کا پتھر مجھے چبھتا نہ تھا |
معلومات