آنکھ سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
دردِ دل پھر سے جگانے کی ضرورت کیا ہے
میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں
میں خفا ہوں تو منانے کی ضرورت کیا ہے
فیصلہ ترکِ تعلق ہے بتاؤ تو سہی
راز یہ مجھ سے چھپانے کی ضرورت کیا ہے
آخری بار ملاقات ضروری تو نہیں
کھل کے کہہ دے کہ بہانے کی ضرورت کیا ہے
دن کو آوارہ پھروں رات کو مے خانے میں
مستقل مجھ کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے
بن پیے ہی میں بہک جاتا ہوں اکثر شاہدؔ
گر یہ سچ ہے تو پلانے کی ضرورت کیا ہے
ق
زندہ رہنے کی سزا کاٹ چکا ہوں اب تو
مر کے اب مجھ کو جلانے کی ضرورت کیا ہے

27