| سنو یارا ! |
| سنو کہ جس سے اب میں ہر تعلق توڑ آیا ہوں |
| سنو کہ جس کی یادوں کو میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں |
| سنو کہ جس کی الفت سے میں اب منھ موڑ آیا ہوں |
| سنو کہ میں بھی انساں ہوں |
| مرے سینے میں بھی دل ہے |
| مجھے بھی چوٹ لگتی ہے |
| مجھے بھی درد ہوتا ہے |
| مجھے بھی اور لوگوں کی طرح غصہ بھی آتا ہے |
| مگر افسوس ہے مجھ کو |
| بہت شرمندہ ہوں تم سے |
| کہ مرتا کیا نہ کرتا میں |
| سو جو کرنا تھا کر ڈالا |
| کہ میں مجبور تھا اس پر |
| تمہاری بے وفائی نے |
| مجھے اکسایا تھا اس پر |
| وگرنہ بزم و محفل میں کبھی میں لب کشا ہوتا |
| نہ تم مجھ سے جدا ہوتی نہ میں تم سے جدا ہوتا |
| مگر یہ بھی ضروری تھا |
| کہ محفل میں ہمیشہ شور و غل اچھا نہیں ہوتا |
| کبھی تنہائی بھی ہو کہ |
| یہ تنہائی جواں دل کے لیے بے حد ضروری ہے |
| کسی شاعر کی نظموں کے لیے بے حد ضروری ہے |
| غزل ہو گیت ہو سنگیت ہو ، نغمہ نگاری ہو |
| جہانِ نو بنو میں ہر نفس آباد کاری ہو |
| یہ نغمے ، راگ ، سر ، لے ، دھن |
| یہ رنگ و بو یہ کلمۂ کن |
| یہ سب اس کے ہی پروردہ |
| اسی سے تم اسی سے میں |
| جہانِ تازہ کی ہرشی |
| چلو اچھا ہوا ، شاید بچھڑ کر اب سکوں پاؤں |
| کہ دنیا سے دمِ رخصت میں بھی کچھ کام کر جاؤں |
| کتابِ زندگانی کو تمہارے نام کر جاؤں |
| یہ شعر و مصرع و نظم و غزل بدنام کر جاؤں |
| کہ حسن و عشق کے فتنے زباں زد عام کر جاؤں |
| مگر میں کیوں کروں ایسا |
| تمہارے ہجر میں میں نے |
| کئی قربانیاں دی ہیں |
| چمن میں پھول و شبنم سے بھی رشتہ توڑ آیا ہوں |
| تمہارے شوق میں دلبر میں دنیا چھوڑ آیا ہوں |
| مگر اب دل تڑپتا ہے |
| یہ پہلو میں مچلتا ہے |
| الٹتا ہے پلٹتا ہے |
| سسکتا ہے بلکتا ہے |
| شبِ مہتاب میں تو یہ |
| بہت بیتاب ہوتا ہے |
| مگر میں کیا کروں اب کہ |
| غمِ دنیا کا میں مارا |
| نہیں جس سے کوئی چارا |
| نہ کوئی غم گسار اپنا نہ کوئی دوست ہے یارا |
| شبِ فرقت کا گھبرایا ہوا تنہا میں بے چارا |
| کہ محفل میں کوئی جیسے ہو أہلِ دل کا دھتکارا |
| مری بھی خواہشیں تھی ، جس کی کچھ پروا نہ کی تم نے |
| رہے گی عمر بھر حسرت |
| ہمیں بھی تم سے ملنے کی |
| تمہیں بھی مجھ سے ملنے کی |
| مگر شاید یہ مشکل ہو |
| کہ کل جب تم کو فرصت ہو |
| تو میں مشغول ہو جاؤں |
| کسی بے ربط دھڑکن کی صداؤں میں میں کھو جاؤں |
| شرابِ حسن پی کر میں کہیں مخمور ہو جاؤں |
| کسی کے عشقِ فتنہ گر سے میں مجبور ہو جاؤں |
| کسی کی وادی سینا میں جل کر طور ہو جاؤں |
| کہ وجد و بے خودی میں نغمۂ منصور ہو جاؤں |
| میں تم سے دور ہو جاؤں |
| میں تم سے دور ہو جاؤں |
| لہذا اب یہ سوچا ہوں |
| کہ میں بھی تم کو دھوکہ دوں |
| تمنا ہے کہ اب تم سے سلام الوداع کہ لوں |
| سلام الوداع کہہ کر میں تم سے معذرت کر لوں |
| کہ یہ ممکن نہیں مجھ سے |
| کہ تم کو عمر بھر چاہوں |
| کسی عاشق سا میں بھی خود کو یوں بے آبرو کرلوں |
| کہ جیسے کوہ میں فرہاد اور صحراؤں میں مجنوں |
| لہذا سوچتا ہوں میں |
| کہ تم سے معذرت کر لوں |
| سو تم بھی بھول جاؤ اب |
| نہ تم چاہو نہ میں چاہوں |
| نہ میں بیتاب ہوکر اب کبھی تیری گلی آؤں |
| نہ مجنوں کی طرح میں بھی تمہیں بے انتہاء چاہوں |
| نہ شیریں کے لیے میں بھی کوئی فرہاد بن جاؤں |
| لہذا دل پہ پتھر رکھ کے میں تم سے یہ کہتا ہوں |
| میں تم سے معذرت خواہ ہوں |
| میں تم سے معذرت خواہ ہوں |
معلومات