اتار دے نہ یقیں مجھ کو شک کے پار کہیں |
بسیرا اس نے کیا ہے دھنک کے پار کہیں |
مری بساط کہاں تھی کہ روک پاتا اسے |
دھواں سا بن کے جو اترا افق کے پار کہیں |
مجھے گلوں کی لطافت سے اختلاف نہیں |
بجھا بجھا سا ہے چہرہ مہک کے پار کہیں |
ندی کا شور بھی جذبات کا طلاطم تھا |
وہ کس جہان میں پہنچا تھا تک کے پار کہیں |
جہاں گئی ہے نظر سامنے وہی چہرہ |
دعا کرو کہ یہ اترے جھلک کے پار کہیں |
بجا کہ چاروں طرف اک سراب پھیلا ہے |
شجر بھی ہوں گے مگر لق و دق کے پار کہیں |
نجم! تُو ظاہری چہرے میں تو منوّر ہے |
اندھیرے ہوں گے تری اس دمک کے پار کہیں |
تمہارے زرد سے چہرے سے ہے خلش سی مجھے |
لگا ہو زخم مبادہ کسک کے پار کہیں |
رشیدؔ تو نے وفا کا صلہ دیا کیا ہے؟ |
وہ بیٹھ جائے نہ ایسے میں تھک کے پار کہیں |
رشید حسرتؔ |
آج مورخہ ۲۹ اپریل ۲۰۲۵، دوپہر ۰۲ بجے یہ مکمل ہوئی۔ |
معلومات