یاد میں تری میرا دل مچل گیا ہوگا
اور تڑپ تڑپ کے دن بھی یہ ڈھل گیا ہوگا
ہم نے رکھے ہیں دل پر زخم یہ محبت کے
ا ور وہ زخم بھی کیا آخر جو سل گیا ہوگا
میرا یار تھا دل کا وہ بہت ہی سیدھا سا
وہ بھی باتوں میں غیروں کی پگھل گیا ہوگا
حادثہ ہے میری زیست میں فراق جاناں پر
تیرے آنے سے جانا یہ بھی ٹل گیا ہوگا
اس سے پہلے میں اظہارِ تمنا کرتا بھی
اپنی چال بھی دشمن کب کی چل گیا ہوگا
مت تو پوچھ حالِ نورِ نگاہ ان کی دوست
پلکیں وہ اٹھی ہر نظارہ جل گیا ہوگا
تیری ہے نہیں لغزش ساقی تو نہ گھبرا کچھ
جام تشنگی سے میری اچھل گیا ہوگا
تم نے دیر کی ہے بے حد عبیدؔ آنے میں
اْس کا تو کسی اور سے دل بدل گیا ہوگا

0
5
135
سلام عبید صاحب، اس غزل میں ڈھل، چل، ٹل، جل وغیرہ کے ساتھ سِل کا قافیہ معیوب ہے، اس پہ نظرِ ثانی کریں...

سلام عزیز ،اصلاح کے لیے شکریہ۔یہاں اسے رہنے دیتا ہوں میری غزلوں کی پرسنل ڈائری سے خارج کردیتا ہوں۔

عامر رضا صاحب ۔ایک استا د نے اس غزل کو وزن سے خارج قرار دیا۔ان کا کہنا ہے اسے
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
پر بنائیں ۔آپ کی کیا راۓ ہے؟ کہاں وزن گر رہا یا بحر غیر مستعمل ہورہی ہے۔

0
عبید صاحب، ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ کی غزل مکمل وزن میں ہے اور اس کی بحر ہے: ہزج مثمن اشتر (فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن)۔ آپ بھی اسے اصلاح اور تقطیع سیکش میں جا کر چیک کر سکتے ہیں۔

0
جی عزیز میں نے کئی بار چیک کیا نہ جانے کیوں کچھ لوگو کو تنقید کی عادت ہوگئی تاکہ سر بزم رسوا کریں کسی کو،حالانکہ میں انہیں عزت دیتا ہوں داغ دہلوی اور میر کا درجہ دیتا ہوں برائے استاد لیکن یہ غلطی نہیں بتاتے اور غزل کو خارج کر دیتے ہیں ۔کاش غلطی بھی تو بتائیں نئی بحر دینے کے ساتھ ساتھ!

0