| وہ جن کو مل رہے تھے ذرا سے مل رہے تھے |
| ہم جن کی جستجو میں خُدا سے مل رہے تھے |
| خوشیاں مل رہی تھیں تو تھوڑی مل رہی تھیں |
| درد مگر یہ اچھے خاصے مل رہے تھے |
| ہم شادابی کی جستجو میں پھر رہے تھے اور |
| جو لوگ مل رہے تھے پیاسے مل رہے تھے |
| تمہیں کہاں سے ملی اتنی بڑی تنہائی |
| ہم کو تو ہر طرف تماشے مل رہے تھے |
| کوئی پی چُکا تھا ان کو نچوڑ کے سارے ورق |
| چشمِ نم سے ہم کو جو خلاصے مل رہے تھے |
| ہم کو یاد رہے وہ جامِ شیریں سے لب |
| جب ہم کو نئے نویلے ذائقے مل رہے تھے |
| بانٹ رہے تھے اوروں میں وہ تمغے مگر فیصل |
| ہم کو اُن کی آنکھوں سے دلاسے مل رہے تھے |
| فیصل ملک |
معلومات