بہت قربانیاں دے کر تھی پائی ہم نے آزادی |
دکھوں سے پائی تھی گویا دلِ پُرغم نے آزادی |
ہمیں یوں تو یقیں ہے قوم کے آزاد ہونے کا |
مگر سن لو حقیقت میں ہے پائی کم نے آزادی |
اگرچہ یاد اپنوں کی ہمیں قربانیاں بھی ہیں |
نظر میں اپنے جذبوں کی مگر ویرانیاں بھی ہیں |
یہ مانا قوم کی امید ہے ہم نوجوانوں سے |
مسلط ہم پہ لیکن وقت کی شیطانیاں بھی ہیں |
بھلا ہے پاس اپنے کیا جو زیبِ داستاں بھی ہو |
نہ ایسا حال ہی اپنا کہ دل اب شادماں بھی ہو |
غلامی میں بھی جینا پھر ذرا آسان تھا لیکن |
یہ کیا شرط رہائی ہے کہ جینا امتحاں بھی ہو |
چمن میں تو بہاریں ہیں مگر گل کیوں نہیں کھلتے |
ہمارے طور کیوں آزاد قوموں سے نہیں ملتے |
یہ خوفِ حاکمِ شہرِ ستمگر سے ہوئ حالت |
کوئی بھی ظلم ہو جائے ہمارے لب نہیں ہلتے |
سلامت اے مری دھرتی دعا دو ہم مکینوں کو |
تلاطم خیز موجوں میں اتاریں ہم سفینوں کو |
کہ اب بھی خواب باقی ہیں ابھی امید باقی ہے |
نیا آغاز لکھنا ہے وطن کے جانشینوں کو |
معلومات