| بے دم سا (ترا لے کے میں احسان) پڑا ہوں |
| بے جان (بڑا سہہ کے میں اپمان) پڑا ہوں |
| تقدیر صحیفے نے ہدف مجھ کو بنایا |
| بے نام کبھی تھا ابھی بے نان پڑا ہوں |
| جو جتنا اٹھا پائے کوئی ٹوک نہیں ہے |
| ہوں مالِ غنیمت، کوئی سامان پڑا ہوں |
| کیوں آ کے کوئی دشت کو سیراب کرے گا؟ |
| تنہائی میں بے آب بیانان پڑا ہوں |
| جو ساتھ چلے برق روی لے کے اڑی ہے |
| ششدر سا ہوں دو راہے پہ حیران پڑا ہوں |
| جادو کی چھڑی کب تھی مرے پاس، گھماتا |
| ہونا تھا یہ انجام سو بے جان بڑا ہوں |
| حسرتؔ ہے مجھے گھر میں بڑی قدر و فضیلت |
| جیسے ہو کسی کونے میں گلدان، پڑا ہوں |
| رشِید حسرتؔ |
| ۱۵ مئی ۲۰۲۵، شب ۰۱ بج کر تیرہ منٹ پر غزل مکمل کی گئی۔ |
معلومات