غم دیدو مجھے میں ہوں اِک غم کا جہاں یاروں
غم بھی ہے عبادت اک اللہ کے یہاں یاروں
کچھ یاد رہا مجھ کو کچھ بھول چکا ہوں میں
ہر یاد رہے باقی وہ ذہن کہاں یاروں
غم سے جو محبت ہو ہو شکرِ خداوندی
محبوب کوئی غم کا ملتا ہے کہاں یاروں
ہم پیار کریں اس کو نفرت ہو جسے ہم سے
ضد کام ہمارا ہے نفرت ہو جہاں یاروں
ہے کالی گھٹا بجلی اور بوندیں بھی بارش کی
طوفان سمندر کا ہے خوب سماں یاروں
طوفاں ہے سمندر کا کشتی مری مشکل میں
خاموش کیوں بیٹھے ہو ہو کوئی فغاں یاروں
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس ہی کرتے ہیں امداد کہاں یاروں
قابو میں رکھو غصہ اور اپنی زبانو کو
لے جاتی جہنم میں بے قابو زباں یاروں
کہتے جو غزل ہو تم سننے کو بھی کوئی ہو
سننے کا کہاں ہے اب یہ دورِ زماں یاروں
پڑھتا ہے زبیر آخر جس وقت غزل اپنی
کوئی وہاں سنتا ہے تو کوئی یہاں یاروں

0
12