کوئی بھٹکا دکھائے راستہ ایسے نہیں ہوتا
کوئی گمراہ بھی ہو رہنما ایسے نہیں ہوتا
یہاں تک آنے کی خاطر وہ کیا کیا کچھ نہ کرنا ہے
مہرباں دل کا کوئی قافلہ ایسے نہیں ہوتا
کوئی بادِ بہاری کی کشش کرتی ہے آمادہ
کوئی سرگرم در آب و ہوا ایسے نہیں ہوتا
سراسر ہو گئے ناکام میرے سارے ہی حربے
یہ دل راضی قضا پر دوستا ایسے نہیں ہوتا
زمانہ بندشوں میں ہر کسی کو یوں جکڑتا ہے
وگرنہ آپ ایسے بے وفا ایسے نہیں ہوتا
اگر وہ حسن رکھتے ہیں تو ہم بھی عشق رکھتے ہیں
ہم دکھلائیں گے وہ آیینہ ایسے نہیں ہوتا
ترا طرزِ بیاں ثانی سبھی کو بھا گیا یکدم
کوئی اس بزم میں نغمہ سرا ایسے نہیں ہوتا

0
15