غزل اردو
سانس گھٹتا ہے مرا نیند بھی آتی ہی نہیں
ایسے ماحول میں لگتا مرا اب جی ہی نہیں
اپنی روٹی جو اسے روز وہ دے دیتی ہے
بھوک ماں کو وہ سمجھتا ہے کہ لگتی ہی نہیں
تو نے آنکھوں سے پلائی ہو تو معلوم نہیں
ورنہ میں نے تو شراب آج تلک پی ہی نہیں
لاکھ شکوے ہیں مجھے تم سے مری جان مگر
میرے ہونٹوں نے شکایت تو کبھی کی ہی نہیں
جتنی بے باکی سے گفتار تو کر جاتا ہے
اتنی آزادی تجھے اس نے کبھی دی ہی نہیں
جو شکایت بھی کرے غیروں سے جا کر انور
ایسی ہم نے تو محبت کبھی دیکھی ہی نہیں
انور نمانا

0
6