| وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں |
| تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں |
| سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں |
| یہ میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں |
| نجانے کِتنی مُشقّت سے پالتی ہے یتِیم |
| ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں |
| وہ در فرار کے مُجھ پر کُھلے تو رکھتا ہے |
| وه زُلف قید سے لیکِن رِہائی دیتا نہیں |
| زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج |
| که فصل کاٹتا تو ہے بٹائی دیتا نہیں |
| میں اپنے نام کی اِس میں لکِیر کھینچ نہ لُوں |
| وُه میرے ہاتھ میں دستِ حِنائی دیتا نہیں |
| نہ ہوتی حُسن کی توصِیف گر اُسےؔ مقصُود |
| تو شاہکارؔ کو اِتنی صفائی دیتا نہیں |
| کسک جو دِل میں ہے بخشی ہُوئی اُسیؔ کی ہے |
| مقامِ عِشق تلک جو رسائی دیتا نہیں |
| رشِیدؔ پیڑ کے ساۓ سے سُکھ کی تھی اُمید |
| یہ کیا کِہ بیٹا بھی گھر میں کمائی دیتا نہیں |
| رشید حسرتؔ |
معلومات