| مصطفی کی ہے تو آل مہرِ علی |
| اور حیدر کا تو لال مہرِ علی |
| ۔ |
| پشت تیری پہ ہے شہ کا دستِ کرم |
| اور طریقت تری ڈھال مہرِ علی |
| ۔ |
| پہرہ ختمِ نبوت پہ تو نے دیا |
| تجھ سے گھبرایا دجّال ، مہرِ علی |
| ۔ |
| کیوں نہ باطل پہ ہیبت ہو تیری کہ تو |
| شیرِ یزداں کا ہے لال مہرِ علی |
| ۔ |
| غوث اعظم کی تجھ پر عطا ہے کمال |
| تیرے نوکر ہیں ابدال مہرِ علی |
| ۔ |
| عشقِ احمد میں مستاں رکھے رند کو |
| جام میں ایسا کچھ ڈال مہرِ علی |
| ۔ |
| گنگنائے نہ کیوں کر وہ نغمے جو ہے |
| جود تیرے سے خوش حال مہرِ علی |
| ۔ |
| ہے کرم تیرا عاجز پہ میرے شہا |
| تو ، تری جد ہے لجپال مہرِ علی |
معلومات