وعدہ کب یار نے نبھایا ہے
ہم کو ہر بار ہی رلایا ہے
پنچھی پہچانتے ہیں خطرہ کو
"جال صیاد نے بچھایا ہے"
اُن سے اظہارِ عشق ہو تو گیا
شور پھر کیوں بے جا مچایا ہے
ہم سرِ شام ہی نکل پڑے ہیں
شام ساحل پہ جو بلایا ہے
رہ گیا اختیار کچھ نہیں اب
خواب نے نیند سے جگایا ہے
ہو عیاں چشمِ پُر خمار سے کچھ
شوخ چنچل سماں جو چھایا ہے
ہے یہ دستور پیار کا ناصؔر
جس کو چاہا اُسے نہ پایا ہے

0
54