اس کا ضمیر لفظ کے سانچوں میں ڈھل گیا |
کہنے کو تھا وہ جھوٹ منہ سے سچ نکل گیا |
شیطان حسن اوڑھ کے آیا تھا بار بار |
پڑھ کر کتاب عشق کی میں بھی سنبھل گیا |
لمبی اندھیری رات میں تارے نہ رہ سکے |
نکلا جو چاند پھر تو نہیں ایک پل گیا |
ہم نے تو سر اُٹھا کے یوں دیکھا نہ تھا کبھی |
اس پر نظر پڑی تو جیسے دل مچل گیا |
کچھ ہم سے بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی |
اس کے بھی کچھ مزاج کا موسم بدل گیا |
اتنی کڑی تھی دھوپ مرے سر پہ ہجر کی |
سایہ بھی ساتھ چھوڑ کے پہلو میں جل گیا |
بارش تھی کب سے آنکھ کے اندر تھمی ہوئی |
دیکھا تجھے تو ضبط کا تختہ پھسل گیا |
دیکھا نہ ہم نے کوئی بھی ٹھہرا جہان میں |
جس کو بلاوہ آ گیا وہ سر کے بل گیا |
طارق ترے بغیر بھی ہے کارواں رواں |
دنیا کا کام کونسا ہے جو کہ ٹل گیا |
معلومات