| نہ ملنے کے اشارے دے گئے ہو |
| خسارے ہی خسارے دے گئے ہو |
| کہوں کیسے میں خود کو بے سہارا |
| کہ یادوں کے سہارے دے گئے ہو |
| حیاتِ جاودانی میں اُتر کر |
| دل و جاں کو کنارے دے گئے ہو |
| کروں گا کس لیے نفرت کہ مجھکو |
| محبت کے ستارے دے گئے ہو |
| نہیں دکھتا سوائے اُنکے کچھ بھی |
| نگہ کو جو نظارے دے گئے ہو |
معلومات