| آ جاؤ رفتہ رفتہ بَہارانِ خُلد تک |
| رستہ ہے کربلا سے گُلستانِ خُلد تک |
| آئے حُسینؑ، سج گیا میدانِ کربلا |
| غازیؑ بنے ہیں قوتِ فرزندِ مصطفیؐ |
| قاسمؑ میں ہے جہاد کا جوش اور ولولہ |
| اکبرؑ نے دی اذان کہ وقتِ سحر ہوا |
| یہ سب خدا کے دین کی نصرت کو آئے ہیں |
| روح الامیںؑ نے زیرِ قدم پر بچھائے ہیں |
| حضرتؑ کے جاں نثار تھے سب مظہرِ اِلہ |
| ایک اِک جوان تھا، خوش ادا اور خوش نِگاہ |
| حُسنِ جہاں میں حُسن کے تھے سب ہی بادشاہ |
| دیکھا جو اِن کو بھول گیا چاند اپنی راہ |
| انسان شاہکار تھے وہ کِردِگار کے |
| انسان آئیں گے نہیں اب اِس وقار کے |
| پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ایسی حَسیں سپاہ |
| دیکِھیں جو صورتیں وہ، تو دھندلا گئی نگاہ |
| فردوس ہم کو لگنے لگی تھی وہ رزم گاہ |
| نادِم ہو جائے مدِ مقابل جو آئے ماہ |
| میدان میں تھا کوئی محمدؐ کوئی علیؑ |
| نورِ خدا سے سب کی تھی صورت بنی ہوئی |
| قاسمؑ کے چہرے سے تھا جلالِ خدا عیاں |
| چشمِ فَلک نے دیکھا نہ ایسا جری، جواں |
| اِک وار سے مِٹا دِیے دشمن کے سب نشاں |
| جس پر پڑی نگاہ کہا اُس نے الاماں |
| چھپنے کو ڈھونڈتے تھے جگہ دشمنِ خدا |
| ہمت نہیں تھی اُن میں کہ وہ کرتے سامنا |
| نکلا ہے رن میں جس کے مقدر میں ہے ظفر |
| طاقت ہے جس میں شیرِ خداؑ کی وہی نڈر |
| بھاری ہے جو ہزاروں پہ وہ بے خطر, بشر |
| رخ جس کا دیکھ کر ہوے دشمن اِدھر اُدھر |
| فوجِ یزید پر بڑی ہیبت کے سائے ہیں |
| لڑنے کو رزم گاہ میں عباسؑ آئے ہیں |
| ہے قوتِ حُسینؑ یہ عباسِؑ نام ور |
| غازی کہیں جِسے شہِ مرداں کا وہ پِسر |
| کرتا ہے سہل دشمنوں پر رستہِ سقر |
| ٹکتے نہیں مقابلے پر اِس کے اہلِ شر |
| عباسؑ کر کے لعنتیں افواجِ شام پر |
| جاں دیتے تھے حُسین علیہ السلام پر |
| گو زخمی بھی تھے جسم بھی تھا خوں میں تر، مگر |
| میدان میں رُکی نہیں تلوار لمحہ بھر |
| وہ تیغِ بے پناہ پِھری تھی جِدھر جِدھر |
| دشمن کی صف میں موت پِھری تھی اُدھر اُدھر |
| کوئی مقابل آتا نہیں ڈرتے ہیں شَقی |
| غازیؑ کو دیکھ کر سبھی کی جاں نکل گئی |
معلومات