قبلہ گاہِ عشق ہے نورِ جمالِ مصطفیٰ |
یہ جمیلِ کبریا یعنی بہارِ دوسریٰ |
جس تجلیٰ سے بنی ہیں رونقیں گلزار کی |
وہ ضیائے ابتدا بھی جلوہ ہے دلدار کا |
ہیں حبیبِ عارفاں، جان و جمالِ دو جہاں |
حسنِ موجودات ہیں، یا پھر جہاں، ہیں حسن کا |
جملہ ضیاء دو سریٰ ہے، دان جن کے نور سے |
نورِ یزداں جانِ ما آقا محمد مصطفیٰ |
نور کی عترت میں ہے، ہر بچہ بچہ نور کا |
فیضِ آلِ مصطفیٰ، جانِ کمالِ ما سوا |
نور فعل و قول ہے، اور نور اُن کی ہر ادا |
نور سے، اس نور کا، ڈنکا جہاں میں بج گیا |
نور سے ہیں کل درخشاں، وادیاں، کوہ و دمن |
چاندنی کے فیض نے، روشن چمن بھی کر دیا |
فیضِ جاں، نورِ حرم ہے، ذات اس دلدار کی |
خلق کا ہر فرد بھی، پیارے سخی کا ہے گدا |
دان لینے نور کا آتے ہیں نوری جس جگہ |
وہ مدینہ کی حرم میں، باب ہے سرکار کا |
قسمتوں کے ہیں دھنی، سارے گدا مختار کے |
دان کھاتے ہیں نبی کا، ادنیٰ ہیں یا بادشاہ |
گنجِ فیضِ مصطفیٰ، محمود ہے رازِ خدا |
وہ قسیمِ ہر عطا ہیں، وہ حبیبِ کبریا |
معلومات