| ترے جیسے لاکھوں صنم دیکھتے ہیں |
| کبھی چاہتوں کو جو ہم دیکھتے ہیں |
| وہی درد دل میں رقم دیکھتے ہیں |
| کہ ہر زخم میں تیرا غم دیکھتے ہیں |
| زمانے پہ تیرا بھرم دیکھتے ہیں |
| ترا نام تیری قسم دیکھتے ہیں |
| لگی چوٹ دل پر ہے جانے سے تیرے |
| مگر ہم تو تیرے کرم دیکھتے ہیں |
| ہماری تھی محفل جو لٹ ہی گئ ہے |
| تری محفلوں میں بھرم دیکھتے ہیں |
| وہ ہم سے کہیں کچھ خفا ہو نہ جائے |
| یہی سوچ کر ہر ستم دیکھتے ہیں |
| ہیں اوروں کی قسمت میں خوشیاں ہزاروں |
| فقط اپنی قسمت میں غم دیکھتے ہیں |
| طلب تھی سکوں کی ملی بے خودی ہے |
| یہی زندگی کے ستم دیکھتے ہیں |
| مرا دل مری سجدہ گاہ بن گیا ہے |
| اسی دل میں تیرا حرم دیکھتے ہیں |
| جہاں ہو ترا غم جہاں ہو محبت |
| وہیں فیصلؔ اپنا قلم دیکھتے ہیں |
معلومات