| ہونٹوں سے وہ گلابی گئی |
| آنکھوں کی بھی سیاہی گئی |
| کیا گئی زندگی سے تو یار |
| اپنی تو زندگی ہی گئی |
| کھا لیا سارا دیمک نے گھر |
| ہجر تو ذات کھاتی گئی |
| ایک میرے چلے جانے سے |
| دیکھو کتنی اداسی گئی |
| ایک لمحے کی نسبت ملی |
| اپنی تو رائیگانی گئی |
| بیٹھ کے پی لی اک دن شراب |
| ایک صف خاندانی گئی |
| تیرے آنے سے ایماں بڑھا |
| پھر ترے بعد وہ... پی گئ |
| بے مروت ہی تھی زندگی |
| بے مروت ہی سالی گئی |
| جانے والے نہیں آتے پھر |
| یہ بھی گالی مجھے دی گئی |
| وصل کو بیچ کر ساری عمر |
| بس جدائی کمائی گئی |
| وہ کتاب اپنی تھی ہی نہیں |
| زیست میں جو پڑھائی گئی |
| نور شیر |
معلومات