تقاضائے طبیعت زر کی خواہش میں مچل جائے
تعیش کی تپش زوری سے دل اپنا ابل جائے
نہ مغلوب گماں ہونا، نہ کاوش سے مکرنا ہے
"ہوائیں سر پھری تھم جائیں تو موسم بدل جائے"
ہے رغبت تو مقدر ہو درخشاں طفل مکتب کا
اگر جہد مسلسل کے یہاں سانچہ میں وہ ڈھل جائے
مصمم ہو ارادیں تو ندامت سے بچیں گے ہم
پشیمانی نہیں آ سکتی من میں عزم جو پل جائے
ہو فرصت تو فلاحی کاموں میں دلچسپی لینی ہے
کبھی ملت کی خاطر سینہ میں کچھ غم اچھل جائے
خبر ناصؔر نہیں مالک پکڑ یا درگزر کر دے
قیامت میں کہیں سے کام عاصی کا نکل جائے

0
54