| اے حسیں جسم والے بات یہ سُن |
| جسم سے پر کشش ہے حسنِ گُن |
| ۔ |
| کتنی پیاری ہے بحر اور یہ دُھن |
| فاعلاتن مفاعلن فعلُن |
| ۔ |
| ساتھ وہ دم بدم رہے اے خدا |
| ہاتھ اٹھے ہیں اور تو کہہ دے کُن |
| ۔ |
| تجھ کو پانے کی ضد قبول ہے پر |
| جانتا ہوں ہے نفس گمرہ کُن |
| ۔ |
| پہلے تو پارۂ دل ہزار کیے |
| اب یہ کہتا ہے تُو انھیں خود چُن |
معلومات