بیلا چمیلی جوہی گیندا کنول گلاب
گلشن کی ہر کلی پر چھایا ترا شباب
وہ کہکشا ں ۓ انجم یہ مہرو ماہتاب
کوئی نہیں ہے تیرے اس حسن کا جواب
رمز و خوشی نشاط اور اشکِوں کا اضطراب
نینوں میں تیرے بسنا ہے ان سبھوں کا خواب
قاتل ادائیں تیری شوخی بھی بے حساب
آنکھوں میں راز گہرے چہرہ کھلی کتاب
اک آن میں لٹا میرے دل کا کارواں
نگری میں دل کی ہاۓآ آیا وہ انقلاب
رندوں کی ہو گئی بن روزے کے آج عید
آنکھوں سے چاند نے ہے چھلکایا وہ شراب
پیر و فقیر مرشد راجا ہو یا نواب
ہر دل میں تیرا جلوہ جیسے کہ آفتاب

0
31