| جب آنکھوں ہی میں دکھ جائے تو کیا اقرار کی حاجت |
| مگر یہ رسمِ الفت ہے کہ ہے اظہار کی حاجت |
| بھری محفل میں جو رسوا کرے پگڑی اچھلواۓ |
| نہیں منظور مجھ کو یوں کسی گفتار کی حاجت |
| سرِ محشر مجھے اندیشہء رسوائی ہو جس سے |
| نہیں رہ جاتی پھر ایسے کسی کردار کی حاجت |
| اگر دولت ہی اے دلبر ترا مقصود ہستی ہے |
| تو پھر مجھ کو نہیں ایسے کسی دلدار کی حاجت |
| کہیں محشر کی تنہائی کہیں ہنگامہ آرائی |
| کسے معلوم کیوں ہے یاں مرے اشعار کی حاجت |
| جو یاں فکرِ معاش آئی ہوا علم و ادب رسوا |
| یہی دستورِ دنیا ہے کسے انکار کی حاجت |
| جہاں پیمانہء الفت فقط سرمایہ داری ہے |
| وہاں کیا ہو بھلا شاہیؔ کسی معیار کی حاجت |
معلومات