| جہاں دار اور نہ ہی جہاں سے ہم |
| رکھتے ہیں نسبت آسماں سے ہم |
| تم یہیں ہم سے ملتے ہو یا پھر |
| حشر برپا کریں فُغاں سے ہم |
| دل ملول اور جاں نڈھال لیے |
| پلٹے ہیں اُن کے آستاں سے ہم |
| بال و پَر کاٹ ڈالے جب صیاد |
| کس طرح نکلیں آشیاں سے ہم؟ |
| دن کو رہتا ہے ضعف کا عالم |
| رات کو لگتے ہیں جواں سے ہم |
| دل لگا کر حسینوں سے شاہدؔ |
| ہاتھ دھو بیٹھے اپنی جاں سے ہم |
معلومات