| اک ظلم اُس پہ دیکھو آنکھیں دِکھا رہا ہے |
| 'انجام بے حیا کا نذدیک آ رہا ہے" |
| پچھلی دہائیوں میں پاپی اکائیوں کا |
| سب جانتے ہو یارو کردار کیا رہا ہے |
| دھرتی ہے ایک ڈھانچہ، کرگس ہیں چار جانب |
| اک نوچ کر گیا اب اک اور آ رہا ہے |
| حاکم کی ہے ضیافت چونتیس لاکھ کی اور |
| اس شہر کا معلّم ٹکڑے چبا رہا ہے |
| کیا تجربے کو تُجھ کو یہ سرزمیں ملی تھی؟ |
| چُلُّو میں ڈوب مر، پِھر سپنے دِکھا رہا ہے؟ |
| چالیں ہیں شاطرانہ، نیّت بھی کھوٹ والی |
| اک حُکمراں کہ جس سے سب کو گِلہ رہا ہے |
| ذاتی عداوتیں ہیں اور ملک داؤ پر ہے |
| جاگو کہ دیس اپنے ہاتھوں سے جا رہا ہے |
| بچّوں کا فیصلہ بھی پختہ ہو اس سے شائد |
| کچّا تھا اِس کا جو بھی یاں فیصلہ رہا ہے |
| حسرت معاشرے وہ ہیں اور ہی طرح کے |
| یہ بے ضمیر، اِن کو اب کیا سُنا رہا ہے |
| رشید حسرتٓ |
معلومات