| نظر بوسی کے منظر دیکھتے ہیں |
| ہم آئینوں کے اندر دیکھتے ہیں |
| گلی میں آگئے لیلی' کی شاید |
| ہواؤں ںمیں بھی پتھر دیکھتے ہیں |
| تمہارے نام تک پہنچا نہیں جو |
| وہی حرفُُِ مقدر دیکھتے ہیں |
| نگاہوں میں فراغِ دشتِ امکان |
| سرابوں میں سمندر دیکھتے ہیں |
| زمانے۔ نے سبھی بخیے ادھیڑے |
| اب۔ اپنا ہی رفوگر دیکھتے ہیں |
| خزاں کے زرد پتوں کی کسک میں |
| شعورِ دیدۂ تر دیکھتے ہیں |
| علی شیؔدا بھلا اس دورِ غم میں |
| کہاں تجھ سا سخنور دیکھتے ہیں |
معلومات