دل اشکبار ہو ولے لب خندہ
اس رسم سے خفا ہے ترا بندہ
جو داغ غنچہ چھوڑ گیا تھا، اب
گلشن ہے اس نشان پہ شرمندہ
کیوں میری اشک ریز ہوئیں آنکھیں
اس غم پہ دل کو ہونا تھا فرخندہ
لت بن چکا ہے اب گل یہ غمِ ہجراں
ہو چکا غم سے ذہن تھکا ماندہ

0
25