| اپنی ہر سانس پہ خوں روتے یہ مہدیؑ کہہ کر |
| قتل محسنؑ ہوا امت کے ستم ڈھانے پر |
| کیا خطا تھی میرے محسنؑ کی بتا دے کوئی |
| دل پھٹا جاتا ہے بچہ میرا لا دے کوئی |
| نوحہ یوں کرتی رہیں بنتِ نبیؑ رو رو کر |
| جلتا دروازہ گرایا ہے کیے ظلم و ستم |
| چیخ کے کہتی رہیں بنت نبیؑ یہ پیہم |
| ہاتھ ہے ٹوٹا مرا در جو گرایا مجھ پر |
| رخ پہ دادی کے ہیں ظالم نے طمانچے مارے |
| اہلِ شر ہنستے تھے مظلومہ کے سن کے نالے |
| ظلم سے اہلِ جفا کے تھا بپا اک محشر |
| درہ ظالم نے تھا پہلو پہ جو مارا جس دم |
| پسلیاں ٹوٹیں گِریں خاک پہ زہراؑ اس دم |
| سانس لے پاتی نہ تھی ہائے نبیؐ کی دختر |
| ظلم وہ دیکھ کے زینب پہ تھا ؑغش بھی طاری |
| دل سنبھالے ہوئے کہتی رہی غم کی ماری |
| زخموں سے چور یہ مر جائے نہ میری مادر |
| سسکیاں لیتے ہوئے بولے بچالو کوئی |
| خون میں ڈوبی ہیں مادر کو سنبھالو کوئی |
| پیٹ کے سر کو فغاں کرتے تھے ایسے سرورؑ |
| وہ قیامت تھی روا جس کا بیاں ہے مشکل |
| دیکھ کے حضرتِ شبرؑ کا تو پھٹنے لگا دل |
| غش پہ غش آتے رہے گرتی تھیں اماں مضطر |
| یاد بابا کو وہ کرتی رہیں رو رو کے حزیں |
| وہ مظالم ہیں سہے جس کی مثل ملتی نہیں |
| ضعف تھا آ گیا خم بھی ہوئی زہراؑ کی کمر |
| زخمی ہے پہلو کبھی بھی نہ بتایا صائب |
| اپنی تکلیف کو حیدرؑ سے چھپایا صائب |
| ہاتھ مر کے بھی نہ پہلو سے ہٹا تھا پل بھر |
| اپنی ہر سانس پہ خوں روتے یہ مہدیؑ کہہ کر |
معلومات