عام سی لڑکی تری تقدیر بھی کیسی ہوئی
زندگی کے خواب کی تعبیر بھی کیسی ہوئی
اف یہ قدرت سے مگر تقسیر بھی کیسی ہوئی
دل تو دیا ہے خوبصورت پر ہے چہرہ عام سا
چاہتوں کا بھی تصور ہے ذہن میں خام سا
اور قسمت پر پڑا ہے ایک پردا شام سا
ایک عجب سی ہے اداسی ہر طرف چھائی ہوئی
زندگی رہتی ہے دل میں یوں کہ گھبرائی ہوئی
کتنے ارمانوں کی ترسی اور ترسائی ہوئی
عقل سے شکوہ ہی کیا کہ عشق بھی سمجھا نہیں
حسن ظاہر کے سحر سے یہ کبھی نکلا نہیں
من کے اجلے پن کو اس نے بھی کبھی جانا نہیں
کیا کہوں کہ یہ محبت بھی کبھی مل پائے گی
تو نے سمجھا پیار دے کر پیار کو پا جائے گی
یہ تیری سادہ دلی دیکھیں کہ کیا رنگ لائے گی
اس حسیں دنیا میں تو اےعام سی لڑکی ہے کیا
اک تمنا کا سفر جو آگے بڑھتا ہی نہیں
ایک افسانہ کہ جس کو کوئی پڑھتا ہی نہیں

0
166