تیرہ نصیب شخص کو نورِ سحر سے کیا
امید کے افق پہ ستارہ ہے آخری
ہم دیکھتے ہوئے انہیں دیکھا کریں گے کیا
مدنظر نظر کو نظارہ ہے آخری
عشاقِ چشم و گیسوئے جاناں گزر چکے
ثانی اسیرِ نازِ خود آرا ہے آخری
کیا دل کے کارواں کا بھی لٹنا تھا اور کچھ
کیا جان سے ہی جانا خسارہ ہے آخری
تم رفتہ رفتہ چھوڑ کے جانے لگے مجھے
اب تم کو چاہنا ہی دوبارہ ہے آخری
دھڑکن کے پہلے لمحے یہ غمزہ یہ جنبشیں
انگشتِ نازنیں سے اشارہ ہے آخری
میں لہو سے دل کی فضا میں کیا جو خلق
وہ آسمانِ عشق کا تارا ہے آخری
چلتی ہے جس کے غمزے سے دنیائے کن فکاں
اک بے خبر نگاہ سہارا ہے آخری
دیکھو متاعِ سوختہ ساماں کرید کر
اس راکھ میں بھی کوئی شرارہ ہے آخری
ہر جنگجو نگاہ سے لٹتا رہا ہے یہ
کیا شہرِ دل پہ اس کا اجارہ ہے آخری
ثانی ارریاوی

0
6