یار کی محفل میں ذکر کسی غیر کے
ہمیں تو تصور غیر بھی منظور نہیں
عشق میں الہام عام سی بات ہے
کیفیت نا ہو بادہ کشی تو منظور نہیں
یہ تیرے ذکر پے روحانی تبدیلیاں
مجسم میں کچھ بگڑ نا جائے تو منظور نہیں
آواز تیری دے داغ کوئی دھندلا سا
بے داغ چھوڑ جائے تو منظور نہیں
بڑی ہی ظالم شعلہ شبنم سی نگاہیں
پہلی ہی ادا میں نا دے رقص تو منظور نہیں
بات ہونٹوں تک جا پہنچی تو کرشمہ خدا کا
عسل جیسی مسکراہٹ نا ہو تو منظور نہیں
چہرہ تیرا عجب سا نور ہے کوئی
آسماں بھی نا رشک کرے تو منظور نہیں

0
495