میں چپکے چپکے تیری روح میں ایسا سما جاؤں
خیالوں پر تری ہوش و خرد ،دھڑکن پہ چھا جاؤں
۔
اگر سوچے تو سوچے مجھ کو ، دیکھے تو مجھے دیکھے
تجھے میں ذات اپنی کا نشہ ایسا لگا جاؤں
۔
ملے قدرت اگر مجھ کو خدا سے مانگ کے اے دوست
سبھی خوشیاں جہاں کی تیری جھولی میں لٹا جاؤں
۔
یہ سورج ، چاند ، تارے آسماں کے سارے سیّارے
فلک سے توڑ کر تیری ہتھیلی میں تھما جاؤں
۔
تجھے سوچوں تجھے دیکھوں رہوں تجھ میں مگن اتنا
خبر کچھ بھی نہ پاؤں اپنی ہستی بھی گنوا جاؤں
۔
رکھوں مرضی ہی کو تیری مقدم دم بدم عاجز
میں اپنی ہر خوشی مسکان تیری پر لٹا جاؤں

0
27