| میں چپکے چپکے تیری روح میں ایسا سما جاؤں |
| خیالوں پر تری ہوش و خرد ،دھڑکن پہ چھا جاؤں |
| ۔ |
| اگر سوچے تو سوچے مجھ کو ، دیکھے تو مجھے دیکھے |
| تجھے میں ذات اپنی کا نشہ ایسا لگا جاؤں |
| ۔ |
| ملے قدرت اگر مجھ کو خدا سے مانگ کے اے دوست |
| سبھی خوشیاں جہاں کی تیری جھولی میں لٹا جاؤں |
| ۔ |
| یہ سورج ، چاند ، تارے آسماں کے سارے سیّارے |
| فلک سے توڑ کر تیری ہتھیلی میں تھما جاؤں |
| ۔ |
| تجھے سوچوں تجھے دیکھوں رہوں تجھ میں مگن اتنا |
| خبر کچھ بھی نہ پاؤں اپنی ہستی بھی گنوا جاؤں |
| ۔ |
| دل و جاں سے رکھوں مرضی مقدم دم بدم تیری |
| میں اپنی ہر خوشی مسکان تیری پر لٹا جاؤں |
معلومات