| جب بھی لیتا ہے میرا نام وہ پیار کے ساتھ |
| میں جی اٹھتا ہوں پھر سے دلِ بیمار کے ساتھ |
| اس کے آنے سے کھلتے ہیں گلشن میں گلاب |
| جب بھی آتا ہے تو آتا ہے بہار کے ساتھ |
| ترچھی نظریں گلابی چہرہ کمان ابرو |
| جانے کتنی ادائیں ہیں میرے یار کے ساتھ |
| اس کی چال پہ قرباں ہیں جنگل کے ہرن |
| ہائے میں صدقے چلتا ہے کتنے وقار کے ساتھ |
| اس کے بدن کی خوشبو سے مہکے ہے فضا |
| مہکا ہے چمن اس کی مہکار کے ساتھ |
| اس کے طرزِ بیاں سا کوئی انداز نہیں |
| وہ اقرار بھی کرتا ہے تو انکار کے ساتھ |
معلومات