یوں شوق سے تو کوئی مقیّد نہیں ہوتا |
کرسی پہ مگر صاحبِ مسند نہیں ہوتا |
رنگینیٔ گلشن کا بھی ساماں ہے ضروری |
خوشبو ہی فقط پھول کا مقصد نہیں ہوتا |
سستانے کو دے دے جو کڑی دھوپ میں سایہ |
گاؤں کی طرح شہر میں برگد نہیں ہوتا |
بھٹکے ہوئے لوگوں کو جو رستہ نہ دکھا دے |
تقلید کے قابل تو وہ مرشد نہیں ہوتا |
آزادیٔ اظہار میسّر ہے جہاں پر |
واں شیخ کے قبضے میں تو معبد نہیں ہوتا |
مندر پہ کلیسا پہ گرو کے بھی دوارے |
دیکھو تو مساجد پہ ہی گنبد نہیں ہوتا |
طارق ہیں یہ آثارِ تباہی تو ذرا سن |
ہر شخص کو تو نشّۂ ازحد نہیں ہوتا |
معلومات